پولیس کا فرض۔اورجمہوریت کی توہین


پولیس کا فرض۔اورجمہوریت کی توہین 

کراچی کے مختلف علاقوں میں آج کل ایک کاروبار بڑے زور وشور سے جاری ہے۔ویسے تو کئی ایسے کاروبار ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ مگر آج کل جو کاروبار عروج پر ہے وہ وہیکل لیفٹنگ ۔ یہ کاروبار اس قدر زور شور سے جاری ہے کہ اس کی آمدنی کا حساب لگانا خود محکمہ پولیس کے بھی بس کی بات نہیں رہا۔ اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ غیر قانون بھی ہے۔لیکن وہ کام ہی کیا جو قانون کے مطابق کیاجائے۔ پاکستان میں عموماً تمام غیرقانونی کام قانون کے دائرے کار میں رہ کر کیے جاتے ہیں تاکہ بولنے والوں کو موقع نہ ملے۔ اور کام بھی چلتا رہے۔ آج کل یہ کاروبار اس قدر عروج پر پہنچ چکا ہے کہ اس کی آمدنی کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے غیرقانونی طریقے سے اندر کیے جارہے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ۔ اور اگر خبر ہے بھی تو کوئی ایکشن لینے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ شیر کے منہ میں کون ہاتھ ڈالے۔ ہروہ جگہ جہاں نوپارکنگ کا بورڈ لگا ہوا ہے وہیں پر قانونی پارکنگ بنا کر عوام سے پیسے بٹورے جارہے ہیں ۔ اس کام میں پورا ایک مافیا ملوث ہے۔ صدر ‘ کلفٹن ‘ سویک سینٹر‘ نیو چالی‘ جنگ پریس ‘ پریڈی اسٹریٹ‘ سی ویو اور نا جانے کون کون سی جگہیں ہیں جہاں پر شہریوں کا جانا روزکا معمول ہے۔ جہاں بائیک کھڑی کی وہیں ایک شخص آئے گا جو ایک پرچی کے عیوض بیس روپے لے کر آپ کی جان بخشی کرے گا۔ ا ور اگر آپ نے پیسے نہیں دیے تو آپ کو گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں ملے گی اور اگر کسی نے پتلی رسی کے سائڈپر گاڑی کھڑی کردی تو واپسی پر اسے اپنی گاڑی نہیں ملے گی۔ کیوں کہ اسے وہاں شفٹ کرکے بڑے حرام خوری کے اڈے پر پہنچا دیاجاتا ہے۔ جہاں آپ سے تین سو روپے لینے کے بعد گاڑی دی جاتی ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ عرض کرتا چلوں جس کی وجہ سے کسی کی جان چلی گئی۔ ایک شخض صدر زینب مارکیٹ میں آیااوراپنی بائیک بیس روپے بچانے کے لیے پارکنگ ایریاجہاں نو پارکنگ کا بورڈ لگا ہوا تھا وہ کھڑی کرنے کے بجائے قانونی پارکنگ میں کھڑی کرکے اپنی فیملی کے ساتھ شاپنگ کرنے چلا گیا۔ اتفاق سے اس کی بچی کی طبیعت خراب ہوگئی ۔ اور وہ شاپنگ آدھے میں چھوڑ کر وہاں سے نکلا تو اسے اپنی بائیک نظر نہیں آئی۔ وہ کافی پریشان تھا کہ بائیک کہاں گئی۔ بائیک تو حرام خوری کے اڈے پر پہنچ چکی تھی۔ جو بدمعاش قسم کے لوگ اسے لے گئے تھے ۔ جب وہ کافی دیر تک پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر گھومتا رہا تو اس کی بچی کی طبیعت اور خراب ہونے لگی۔ اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ فوری طورپر ٹیکسی لے لے اور کسی نزدیکی اسپتال چلے جائے۔ مگر ٹریفک جام اور وی آئی پی پروٹوکول نے اسے اسپتال پہنچنے کی مہلت ہی نہ دی۔ افسوس کی بات ہے کہ جب وہ پریشان شخص اپنی گاڑی چند دنوں بعد گاڑی کی ایف آئی آر درج کرانے جاتا ہے تو اس کی ایف آئی تک نہیں کٹاجاتی بلکہ اسے تلاش کرنے کا کہا جاتا ہے۔ اور وہ گاڑی وہاں پر کھڑی انہی بدمعاشوں کے لیے گولڈن چانس بن جاتی ہے۔ اور اس گاڑی کے ایک ایک کرکے اکثر پرزے غائب کردیے جاتے ہیں۔ جب مالک وہاں تک پہنچتا ہے تو اسے اپنی گاڑی اس حالت میں ملتی ہے کہ اس سے اچھا کہ وہ نئی گاڑی خرید لے۔ جواب طلب کرنے پر آگے سے دھمکی ملتی ہے کہ ہم تمہارے باپ کے نوکر نہیں جو تمہاری گاڑی کی رکھوالی کریں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن کا معمول بن چکے ہیں مگر مجال ہے کہ قانون اس غیرقانونی کام پر نوٹس لے۔ کیوں کہ یہاں وہ بھی بے بس ہے۔ بلکہ سب کے سب بے بس ہیں۔ اور جو بے بس نہیں وہ یہ کام کرے گا نہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اگر اس پر ہاتھ ڈالا گیا تو ہماری آمدنی ختم ہوگی۔ لہذا جو جیسے چل رہا ہے چلنے دیا جائے۔ ہم روزانہ جمہوریت کو بچانے کی قسمیں کھاتے ہیں اور روزانہ ہی جمہوریت کی حفاظت کے لیے اجلاس پر اجلاس منعقد کرتے ہیں مگر اس پر کسی نے دھیان نہیں دینا ہوتا کہ غریب مرر ہا ہے۔ کیوں کہ اگر غریب پر توجہ دی گئی تو یقیناًجمہوریت کوخطرہ لاحق ہوجائے گا۔ خطرہ نہیں بلکہ جمہوریت ہی ختم ہوجائے گی اور مارشل لاء لگ جائے گا۔ کیوں کہ یہ عوامی مسائل ہیں اور عوامی مسائل پر توجہ دینا جمہوریت کی توہین ہے۔ 
عارف میمن 

Comments

More than 80 million Pakistani drug addicts

جمہوریت کیا ہے؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے نام۔

الطاف حسین اور عمران خان کزن ہیں؟