ملک کو لیڈر کی نہیں ۔ لیڈر کو انسان بننے کی ضرورت ہے


ملک کو لیڈر کی نہیں ۔ لیڈر کو انسان بننے کی ضرورت ہے

پانامہ لیکس پر وزیراعظم کا قومی اسمبلی سے خطاب اور اپوزیشن کا خطاب نہ کرنا اور واک آؤٹ کر جانا حکومت کی دوسری اہم کامیابی ہے۔ اس کی وجہ پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ وزیراعظم ہاؤس میں پاگل یا جاہل لوگ نہیں بیٹھے۔ وہاں کرپشن سے نمٹنے کے ماہرین کی ایک مکمل فوج ہر وقت موجود رہتی ہے۔ کیا وہ یہ سب نہیں جانتے کہ کون ساقانون کہاں استعمال کرنا ہے۔ اس ملک میں اول روز سے یہ دیکھا گیا ہے کہ قانون بعدمیں بنتا ہے پہلے اس کے چور راستے نکالے جاتے ہیں۔ اور اس قانون کی لپیٹ میں صرف وہ ہی شخص آسکتا ہے جسے قانون کا علم نہ ہو۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے‘ اور یہاں پر موجود قانون صرف اور صرف غریب کے لیے ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ایک غریب موٹر سائیکل سوار اگر جیب میں لائسنس یا شناختی کارڈ رکھے بنا پکڑا جاتا ہے تو اسے یا تو حوالات میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھر ایک جرمانے کی پرچی تھما دی جاتی ہے۔ اگر کوئی نوجوان پولیس سے صر ف اس بات پر الجھ جائے کہ آپ نے تلاشی پوری لے لی ہے اب اور کیا چاہتے ہو تو اسے ایک دہشت گرد بنانے کے لیے صرف دو منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اور پولیس اس سے فوراً ہینڈ گرنیڈ ‘ بم ‘ کلاشنکوف یا پھر ایک پسٹل اور چرس پر مجرم بنادیتی ہے۔ یہ تمام قوانین اور صرف اور صرف عوام کے لیے ہیں۔ اس کی پکڑ میں آج تک کوئی امیر یا سیاستدان نہیں آیا۔ اور جب تک یہ ملک قائم ہے اس وقت تک کسی سیاستدان کے قانون کے ہتھے چڑھنے کے امکانات انتہائی معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ 
اس کی واضح مثال آج کا اجلاس اور کئی دنوں سے جاری پاناماجنگ ہے۔ جس شخص پر الزام ہے وہ کمیشن بناتا ہے۔ اس کے رول طے کرتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے فلاں سال سے تحقیقات کی جائے۔ اسے معلوم ہے کہ یہ ناممکن ہے۔ اس پر تحقیقاتی کمیشن اول تو بننا نہیں ہے اور اگر کسی صورت بن بھی گیا تو جب تک یہ تحقیقاتی کمیشن مجھ تک آئے گا اس وقت میرے پوتوں کے پوتے وزیراعظم بن کر ریٹائرڈ زندگی گزاررہے ہوں گے۔ لیکن اب یہ کمیشن مسترد ہوگیا۔ دوسرا راستہ اپوزیشن نے خود دے دیا کہ سات سوالوں کے جواب دے دو اور مزے کرو۔ کیا وزیراعظم کوئی بے وقوف شخص ہے یا وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھی قانونی ماہرین کی فوج عقل سے پیدل ہے۔کیا وہ لوگ ان چیزوں کو نہیں سمجھتے کہ کون سا قانون کہاں استعمال کرنا ہے؟۔ بالکل سمجھتے ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ جتنا وقت وزیراعظم نے لینا تھالیا اور اس دوران جتنے کام سیدھے کرنے تھے وہ کردیے گئے ہوں گے۔ پھر اپوزیشن نے بھی آج وہ کام کیا جس کی بالکل توقع نہیں تھی۔ عوام انہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے بھیجتی ہے نا کہ اجلاسوں سے بائیکاٹ کے لیے۔ جس طرح یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سات سوال عوام پوچھتی ہے تو آج عوام ہی سوال کرتی ہے کہ آیا بتایا جائے کے وہ سات سوال کون سی عوام نے دیے تھے ؟ اور اگر مان لیا کہ عوام نے سوال کیا ہے تو پھر اس کا جواب لینے کے بجائے اجلاس سے اٹھ کر کیوں آگئے۔؟ کیا یہ ڈرامہ نہیں قوم کے ساتھ کہ اجلاس میں کچھ نہ کہنا اور باہر آکر ایک لمبی چوڑی تقریر کرکے اپنے آپ کو صاف اور دوسرے کو گندہ کرنا۔ 
میڈیا عوام کو بتا رہی ہے کہ حالات بہت بگڑ چکے ہیں ۔ آئندہ چند دن ملک کی سیاست کے لیے اہم ہیں۔ اور نہ جانے کیاکیا سننے میں آتا ہے مختلف چینلوں پر۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ہی نوازشریف ہوگا اور یہ ہی اپوزیشن ہوگی۔ پانچ سال مدت پوری ہونے کے بعد یہ ہی اپوزیشن مبارکباد دے رہی ہوگی۔ اورپھر نئے الیکشن کے لیے خود ہی متفقہ طورپر نگران حکومت بنائے گی اور جب الیکشن کا وقت نزدیک آئے گاتوپھر مختلف چینلوں پر یہ ہی ڈرامے بازلوگ عوام کو کہہ رہے ہوں گے کہ نگران حکومت ان سے ملی ہوئی ہے اور دھاندلی کی جارہی ہے۔ 68سالوں سے یہ ہی سنتے آرہے ہیں ۔ جوبھی حکومت میں آتا ہے اس سے پہلے یہ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ نظام درست کریں گے۔ اور پھر دوسرے ہی مہینے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ کیوں کہ اربوں روپے کے سامنے کوئی عوام نہیں دکھتی۔ بس کھاؤ پیو اور عیش کے ساتھ حکومت کرو والی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ غریب شروع سے مرا ہے اورآگے بھی مرے گا۔ اس ملک کو لیڈر کی ضرورت نہیں ۔ لیڈر کو انسان بننے کی ضرورت ہے۔ 
نظام میں کوئی برائی نہیں بس اندر کا انسان بے غیرت نہیں ہوناچاہیے۔ 
عارف میمن

Comments

More than 80 million Pakistani drug addicts

جمہوریت کیا ہے؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے نام۔

الطاف حسین اور عمران خان کزن ہیں؟