الطاف حسین اور عمران خان کزن ہیں؟
عارف میمن
لگتا ہے الطاف حسین اور عمران خان دونوں کزن ہیں۔ الطاف نے اپنی سندھ کی مضبوط ترین پارٹی کو متنازع بناکراسے کئی حصوں میں تقسیم کردیا اور عمران خان اپنی اچھی خاصی مقبولیت کو نازیبا بیانات دے کر مسلسل گرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس طرح الطاف حسین کے بیان پر رات بھر رابطہ کمیٹی صفائیاں دیتی رہتی تھی۔ آج کل یہ ہی صورت حال عمران کی پارٹی کے لوگوں کے ساتھ ہورہی ہے۔ وہ بچارے بھی رات رات بھر مختلف چینلز پر عمران خان کے بیان پر وضاحتیں دے رہے ہوتے ہیں۔ کل تک عمران خان ایک لیڈر کے طورپر جاناجاتا تھا مگر اب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ صرف مخصوص گروہ کے گرد ہی اپنی سیاست کررہے ہیں ۔ان کی اسی پالیسیوں کی وجہ سے عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی نے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں ن لیگ سے زبردست قسم کی شکست کھائی۔ اور اب جب ک 2018ءمیں قومی الیکشن ہونے جارہے ہیں ایسے میں انہی الیکشن کی بھرپور تیاری کرنی چاہیے نہ وہ اس طرح کے متنازع بیانات دے کر اپنی ساکھ کو نقصان پہنچائیں۔ ان کا یہ بیان تمام پاکستانیوں کے لیے سخت مایوس کن ثابت ہوا جب انہوںنے یہ کہاکہ پی ایس ایل فائنل میں تمام پھٹیچر غیرملکی کھلاڑی شامل کیے گئے‘جنہیں تھوڑے پیسے بھی دیے جائیں تووہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے بھی پاکستان آجائیں۔ اور ان کا ہم نام تک نہیں جانتے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ لوگ غیرمعروف ہوں مگر کرکٹ کھیلنے کے لیے وہ پاکستان صرف اس فوج اورسیکورٹی اداروں کی یقین دہانی پر پاکستان آئے تھے۔ اور یہاں آکر انہوںنے میچ بھی کھیلااور کچھ جیت کر گئے اور کچھ ہارکر۔ مگر ان تمام صورت حال میں جو توجہ پاکستان کرکٹ کو ملی شاید وہ کبھی اس طرح نہ مل پاتی۔ ہمیں شکرکرنا چاہیے تھا کہ ہم نے کامیابی کی طرف ایک قدم بڑھایا ہے اور اب اس کامیابی کا بغیر سیاسی مخالفت کے دفاع کرناچاہیے ناکہ الٹا اس ایک قدم کامیابی کو پھر سے ناکامی کے زینے پر کھڑا کردینا چاہیے۔ عمران خان نے پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد پر بھی کڑی تنقید کی تھی اور یہاں تک کہ دیا کہ یہ پاگل پن ہے اور کچھ نہیں اور اس کا دفاع رات کو پی ٹی آئی کے رہنما اور ایم این اے محمد علی صاحب اے آر وائے پر بیٹھ کر اس کی وضاحتیں دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ اس طرح کی بات ہے جس طرح کوئی شخص کسی دوست سے یہ کہہ دے کہ بھائی آگے گڑھا ہے پاگل ہو کہ اس طرف جارہے ہو۔ اور نہ جانے کیا کیا اور کس کس طرح وضاحتیں دے رہے تھے ‘لیکن آخر میں جب اٹھے تو پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد کو خوش آئند قرار دے کر اٹھے۔ اب آج کے اس پھٹیچر والے بیان کا دفاع کون کس طرح کرتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ عمران خان اس بیان سے پاکستانیوں کی تودل آزاری ہوئی سو ہوئی ۔ مگر جب بیان انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے ان کھلاڑیوں تک پہنچے گا جنہوںنے لاہورآنے کا ایک انتہائی مشکل فیصلہ کیا تھا تو کیا ان کے دل آزاری نہیں ہوگی۔ اور اب وہ لوگ اگلے ایڈیشن کے لیے پاکستان آئیں گے؟ انتہائی مشکل صورت حال ہے اگر یہ الفاظ محمد نواز کے لیے کوئی دوسرے ملک کا لیڈر کہے تو ہم پاکستانی آسمان سر پراٹھالیتے ‘ اب محمد نواز تو قومی ٹیم کا حصہ نہیں تھے اور انہیں کوئی دوسرا ملک اپنے یہاں کھیلنے کے لیے بلاتا اور وہاں کا کوئی آپ جیسا لیڈر اس طرح کا بیان دیتا تو کیاہم یہ برداشت کرتے۔؟ ہرگزنہیں‘کم از کم میں تو ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ آپ کا علم نہیں۔آپ ایک لیڈر ہیں اور 2013کے الیکشن میں پاکستان کی دوسری بڑی جماعت کے طورپر آنے والی پارٹی کے سربراہ ہیں ‘آپ کو اس طرح کے بیانات سے گریز کرتے ہوئے اپنی قوم کے لیے رول ماڈل ہونے کا کردار اداکرناچاہے نہ کہ ان فضولیات میں پڑھ کر اپنی مقبولیت کو نقصان پہنچائےں۔قوم پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھری ہوئی اور اس میں ان کے لیے خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ‘ لیکن آپ نے اس چھوٹی سی خوشی کو بھی متناز ع بنانے کا سوچ رکھا ہے۔ میںنے کبھی کسی لیڈر کے حوالے سے اتنا کچھ نہیں لکھا مگر آپ کے متنازعات بیانات نے مجبور کردیا کہ میں اس پر لکھوں۔ عمران خان صاحب آپ کو صرف الیکشن میں دھاندلی اور پانامہ ہی نظرآتا ہے ؟ کیاآپ کو اسکول سے باہرکام کرتے ہوئے بچے نظرنہیں آتے جن کا آپ ہر تقریر میں ذکرکرتے ہیں‘ کیا آپ کو ملک میں بڑھتی مہنگائی نظرنہیں آتی ‘ جن کا آپ ہر جلسے میں چرچا کرتے نظرآتے ہیں۔ اور اگر یہ سب آپ کو نظرآتا ہے تو پھر آپ نے یا آپ کی پارٹی نے کب ان کے حوالے سے مخصوص جلسہ کیا ‘کب آپ نے پارلیمنٹ میں ان پر بات کی۔ کب آپ نے ان کے لیے ریلی کا انعقاد کیا؟ کب آپ نے ان کے لیے حکومت پر دباﺅ ڈالا۔ آپ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت ہیں مگر اس کے باوجود آپ نے پارلیمنٹ کو خیر آباد کہہ دیا یہ کہہ کر اس اسمبلی میں چور اور ڈاکو بیٹھے ہیںاور یہ ان کا گھر ہے۔ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد اللہ نے آپ کو وہیں پر لاکر کھڑا کردیا جس جگہ کے بارے میں آپ نے کہا یہ سب کچھ کہا۔ اس کا مطلب آپ بھی چور اور ڈاکو ہیں اور ان کے گھر میں بیٹھ گئے۔ یہ کیسی سیاست ہے جس میں آپ ایک پارٹی کو برا بھلا کہتے ہوئے دوسری پارٹی پر چڑھ دوڑتے ہیں اور پھر اس دوسری پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر پہلی پارٹی کے خلاف سیاسی محاذ بناتے ہیں۔ آپ دوسروں کو کہتے ہیں کہ یہ منافقت کی سیاست کرتے ہیں تو معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس منافقت کی سیاست میں آپ بھی سب سے اول نہیں دوسری پوزیشن پر فائز ہیں۔آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اپنی سیاست کو شفاف بنائیں نہ کہ متنازع۔ اور کھیل اور سیاست کو الگ الگ ہی رکھیں اسی میں سب کا بھلا ہے۔ اور یہ بات آپ کئی بار خود بھی کہہ چکے ہیں ۔مگر آج تک اس پر عمل نہیں کیا۔ اس لیے آپ کو یاد دہانی کروانا چاہتا تھا۔
Comments
Post a Comment