اسی کا نام جمہوریت ہے۔۔
اسی کا نام جمہوریت ہے۔۔
چیف جسٹس نے ٹی آراوز مسترد کرتے ہوئے کمیشن بنانے سے انکار کردیا۔ اور ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ حکومت کی خواہش پر تحقیقات کی تو یہ پھر کبھی ختم نہیں ہوگی۔ کئی سال اسی میں بیت جائیں گے۔
اپوزیشن یہ سوچ رہی ہے کہ وہ کامیاب ہوگئی ہے۔ اب نواز شریف کو پارلیمنٹ میں آنا ہی ہوگا اور ان کے سات سوالوں کے جواب بھی دینے ہوں گے۔
لیکن یہ اپوزیشن کی بھول ہے کہ وہ کامیاب ہوگئی ہے۔ میں چیلنج کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔
کیوں کہ حکومت اپنے پہلے مرحلے میں بھرپور طریقے سے کامیا ب ہوئی ہے۔ جو جاہل یہ سوچ رہے کہ اب نوازشریف پکڑا گیا۔ اپنی جاہلیت کو تھوڑی بہت عقل کی گھاس کھلائیں۔
کیا جن لوگوں نے یہ ٹی آر او بنائے تھے وہ عقل سے پیدل تھے۔؟؟ جی نہیں وہ انتہائی ہوشیار اور انتہائی کرپٹ قسم کے لوگ ہیں۔ انہیں سب راستے معلوم ہیں کہ کہاں سے کس طریقے سے نکلا جاسکتا ہے۔
یہ ٹی آراوز انتہائی سوچ سمجھ کر بنائے گئے تھے۔ تاکہ کچھ وقت ملے اور وہ اپنے پرانے کھاتوں اور پانامہ لیکس کے کھاتوں پر کوئی نیا گیم پلان کرسکیں۔ جب تک اس قوم اور اپوزیشن کو بے وقوف بناتے رہو۔
وہ گیم پلان ابھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ باہر کے لوگوں سے ڈیل ہورہی ہے۔ معاملات جلد ہی طے ہونے کی امید ہے۔ اور اب دوسرے مرحلے کی باری ہے۔
دوسرے مرحلے میں نوازشریف صاحب اسمبلی میں آئیں گے۔ ایاز صادق یہاں بہت بڑا رول پلے کریں گے ۔ تمام اپوزیشن ہولڈرز کے مائیک بند کردیے جائیں گے۔ اور نوازشریف اپنی ایک الگ رام کہانی سناکر آخر میں یہ کہتے ہوئے چل دیں گے کہ معاملات کے لیے کمیٹی بنائیں گے اس میں طے کیے جائیں گے کہ ٹی آراو ز کیا ہونے چاہیں۔
اپوزیشن پھر خوش فہمی کاشکار ہوجائے گی اور یہ کمیٹی ایک سے دو مہینے تک آئیں بائیں شائیں کرتی ہوئی آخر اس فیصلے پر پہنچے گی کہ آدھے تمہارے آدھے ہمارے ٹی آراوز بنائیں جائیں۔ اپوزیشن اس پر رضامند ہوجائے گی۔ اور ساتھ ساتھ میدانوں میں جلسے منعقد ہوں گے۔ اربوں روپیہ پانی کی طرح ضائع ہوگا۔ تحقیقاتی عمل جب تک شروع ہو اور جب تک اختتام کو پہنچے۔ ان کی حکومت اپنی مدت پوری کرچکی ہوگی۔
یہ بات روز اول سے عیاں ہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ میں جو بھی کمیشن بنا اور جو جوڈیشل کمیشن بنے ان کی تحقیقات کا اختتام آج تک نہیں ہوا۔
جس کی مثال یہ ہے کہ میمو گیٹ اسکینڈل اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ حسین حقانی نیٹ ورک پر تحقیقات وہ بھی ادھوری ۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ کے انکشاف پر ہونے والا کیس وہ بھی پینڈنگ میں ۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن وہ بھی اب تک چل رہا ہے۔ سانحہ لاہور ماڈل ٹاؤن اس میں بھی کسی پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ وہ بھی چل رہا ہے۔ مشرف غداری کیس۔ آپ کے سامنے ہیں۔ اکبر بگٹی قتل کیس وہ بھی چل رہا ہے۔ سانحہ بارہ مئی اس پر بھی کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ کراچی اسٹاک مارکیٹ کیس وہ بھی پینڈنگ میں ۔ ایان علی منی لانڈرنگ اس پر کیا سب جانتے ہیں۔
یہ چند کیس بتائے ہیں اسی طرح پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں موجود سینکڑوں کیس وہ بھی اپنے حل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ ہونا کچھ نہیں ہے۔ عوام کا پیسا ہے اس لیے سب خاموش ہیں۔ اگر کسی کی ذاتی ملکیت پر ہاتھ ڈالا جائے تو پھرکیس ہی پہلے ہی دن شروع ہوتا ہے اور دوسرے دن فیصلہ بھی آجاتا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ پاکستان کو بنے آج برسوں ہو گئے مگر ہم آج بھی لکیر کے فقیر ہی رہے ہیں۔ یہ سب کام جمہوریت میں اور جمہوری انداز میں کیے جاتے ہیں۔ جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ کیوں کہ اگر ہاتھ ڈالا جائے تو پھر جمہوریت کو خطرے کا راگ الاپاجاتا ہے۔
جس جس نے جتنا کھاناتھا کھا لیا۔ اب باری ہے سب اپنا اپنا کام کریں ۔ اور وہ کام یہ ہوگا کہ کس طرح اس معاملے سے نکلا جائے اور کس وکیل کو کتنا دیا جائے۔ باہر والوں کو کتنا دیا جائے۔
کو ئی غریب دس روپے کی بھی چوری کرے تو اسے اپنی پوری زندگی جیل میں گزارنی پڑتی ہے۔ مگر یہاں یہ جمہوری لوگ اربوں کھربوں روپے کی چوری کرکے ڈکار تک نہیں مارتے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے یہ سوال پوچھنے کا پورا پورا حق رکھتا ہوں کہ اگر جمہوریت پسند لوگ چور اور ڈاکوہوں تو ان کو پکڑنے والا کوئی نہیں؟
کیا عدالت صرف غریبوں کو سزا دینے کے لیے بنائی گئی ہیں؟
کیا پاکستان آرمی صرف سرحدوں کی حفاظت کی قسم کھاتی ہے؟
کیا احتساب کے ادارے بھی بندربانٹ پر یقین رکھنے لگے ہیں؟
کوئی ایسا بھی ہے جو ان سے سوال کرنے کی جرات کرسکے؟
نہیں ۔۔ شاید ان سب سوالوں کا جواب نہیں میں ہی ملے گا۔
ایسا کوئی نہیں اس ملک میں جو کرپٹ اور چور جمہوریت پسندلوگوں سے سوال کرسکے اور ان انصاف کے کٹہرے میں لا سکے۔
عار ف میمن
Comments
Post a Comment