چیف جسٹس آف پاکستان کے نام۔
عارف میمن ۔
چیف جسٹس آف پاکستان فرماتے ہیں کہ کرپشن اور نااہلی کی بیماری ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ٗ ہمیں ملک سے کرپشن اورنااہلی کی بیماری ختم کرنیکی ضرورت ہے‘ عدالتوں میں 60 فیصد مقدمات سرکاری اداروں کی نااہلی ٗ بے حسی اور بد انتظامی کا نتیجہ ہیں ٗاس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ گڈ گورنس کا ماحول پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ججز یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دیں کہ وہ حاکم ہیں۔ججز عوام کے خادم ہیں جو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔
درست فرمایا جناب آپ نے۔ ججز حاکم نہیں خادم ہیں۔ مگر وہ کونسا جج ہے جو خادم ہے؟ ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے کہ پولیس کی اور سیاست دانوں کی طرح اب جج بھی ہمارے خادم ہوگئے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں ہر اعلیٰ عہدے پر بیٹھا شخص جب کسی تقریب میں مدعو کیاجاتا ہے تو وہاں وہ بہت سنہرے قول فرماتا ہے مگر جب عملی اقدامات کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے یہ وہ ہی پیچھے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں اپنی کرسی اور عہدے سے اس قدر لگاؤ ہوتا ہے کہ ملک ڈوبتا ہے توڈوب جائے مگر ہمارا عہدہ ‘ ہمارا اسٹیٹس برقرار رہنا چاہیے۔ لوگ دعا کرتے ہیں خدا کسی دشمن کوبھی کورٹ ، پولیس اسٹیشن اور اسپتال کا منہ نہ دکھائے۔ کیوں کہ ان اداروں میں جانے سے انسان سب کچھ بیچ کر آخر میں خود کو گروی رکھ دیتا ہے۔ لیکن اس کا مسئلہ اول روز کی طرح جہاں سے شروع ہوتا ہے وہیں پرموجود رہتا ہے۔ اس کی وجہ بھی آپ لوگوں کا کرپٹ نظام ہے۔ سماعت پر سماعت ہوتی رہتی ہے۔ ایک پھل فروش دوروپے اضافے کے ساتھ سیب بیچتا ہے اس پر پچاس ہزار جرمانہ اور چھ ماہ کی قید کی سزا تو فوراّ سنا دی جاتی ہے مگر جو لوگ ملک کوبیچنے میں لگے ہوئے ہیں اسے کھوکھلا کررہے ہیں ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ وائٹ کالر کریمنلز ہیں اس لیے ان پر تمام قانون معاف ہے۔ 69سال ہوگئے پاکستان کی آزادی کو مگر کوئی بھی ایک کیس ایسا نہیں جہاں فوری کارروائی ہوئی ہو اور کسی غریب کو انصاف ملا ہو۔ ایک ضعیف العمر خاتون سے نادراآفس کے باہر ملاقات ہوئی ۔ آنکھوں میں آنسو لیے بے بس بیٹھی ہاتھوں میں پکڑی مختلف رسیدوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ دل بجھ سا گیا۔ سوچا جاکر معلوم کروں آخر کیا ماجرا ہے۔ جج صاحب آپ یقین نہیں کریں گے آپ کے اس کھوکھلے سسٹم کے دھکے سہتے سہتے وہ جان سے جانے والی ہے۔ اس ضعیف العمرخاتون نے بتایا کہ (ب) فارم بنوانے آئی ہوں ۔ بچوں کا ایڈمیشن نہیں ہورہا اسکول میں۔ لیکن یہ لوگ گزشتہ سات مہینے سے مجھے دھکے پر دھکے کھلارہے ہیں۔ میں نے پوچھا(ب ) فارم تو کوئی بڑی بات نہیں پھر آپ کو کیوں یہ لوگ تنگ کررہے ہیں۔ اس نے کہابیٹا بات یہ ہے کہ وہ میرے نواسے اور نواسی ہیں ان کے والدین ایک حادثے ہلاک ہوگئے۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں پہلے ایف آئی آر درج کراؤ۔میں نے ایف آئی آر درج کروادی تو پھر انہوں نے کہاکہ اب کورٹ میں کیس دائر کرو۔ میں نے کیس دائر کردیا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ جب کیس جیت جاؤ گی تو پھر آنا۔ان سات مہینوں میں یہ تین کا ہوئے ہیں اب تم خود سوچوں کہ کیس جیتنے میں کتنا وقت لگے گا۔ اس ملک میں جب کسی غریب کا کیس چلتا ہے تو تمہیں معلوم ہے کہ کتنا عرصہ بیت جاتا ہے۔ اب میں کہاں جاؤں۔ میرے بچوں کا داخلہ نہیں ہورہا اس بنا پر۔ اور ان کی یہ باتیں سن کر میں خو د بھی خاموش ہوگیا۔ یہاں میں کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ یہ المیہ ہے میرے پیارے وطن کا کہ یہاں اول تو انصاف نہیں ملتا۔ او ر اگر مل بھی جائے تو وہ شخص اس دنیا میں موجود تک نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ مثال سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کی ہے۔ جنہوں نے الیکٹرانک میڈیا پرفحاشی اور قابل اعتراض مواد نشر کرنے کے خلاف موادنشر کرنے کے خلاف دائر درخواست ہے۔ جو انہوں نے اپنی حیات میں دائر کی تھی ۔ جنہیں گزرے ہوئے آج چارسال بیت گئے اورآج مورخہ ہفتہ 21/5/2016کو جاکر عدالت کو ہوش آیا کہ کوئی درخواست دائر کی تھی مرحوم نے۔ اب اس کیس پر سماعت ہوگی۔ اور سماعت پر سماعت ہوتی ہی رہے گی۔ اور ایک وقت آئے گا جب عدالت یہ کہہ کر کیس خارج کردے گی کہ جس نے درخواست دائر کی تھی وہ تو دنیا میں ہے ہی نہیں لہذا اس پر مزید سماعت نہیں ہوسکتی۔ اور وہ وقت 3030کا ہوگا۔اور اس وقت یہ یہ پروگرام چلتے رہے گے۔ اور اس کے بعد بھی چلتے رہیں گے۔ شاید اب کوئی دوسراشخص یہ جسارت نہیں کرپائے گاکہ وہ الیکٹرانک میڈیا سے ٹکر لے سکے۔
ایسے ہزاروں کیس آج بھی آپ کی عدالت میں موجود ہیں۔ جن پر آج تک کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ کیوں کہ جنہوں نے آپ لوگوں سے انصاف کی امید رکھی تھی وہ لوگ اسی امید کو لے کر اگلے جہاں کوچ کرگئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم خادم ہیں اور آپ ہمارے ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں۔ درست کہتے ہیں مگر جس کام کے لیے ہم ٹیکس سے آپ لوگوں کی تنخواہ ادا کرتے ہیں قسم سے وہ کام آج تک آپ لوگوں نے نہیں کیا۔ اس ملک کی تاریخ کی تاریخ عدالت کی تاریخ میں بھی کوئی ایسا کام نہیں جس پر ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہماری عدالتیں ہمارا فخرہیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں آپ کی عدالتی تاریخ میں۔ اب نہ تو ہمیں آپ کے انصاف پرکوئی یقین رہا ہے نہ ہی اس ملک کے سیاستدانوں پر۔ اور نہ ہی اپنے محافظوں پر کوئی اعتبار رہا ہے۔ یہ سب آپ لوگوں کی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ آج قوم خاص کر نوجوان قیادت آپ لوگوں سے بددل ہوچکی ہے۔ وہ سسٹم سے خائف ہے۔ اور اس میں ‘میں بھی شامل ہوں۔ آپ لوگ صرف بڑی بڑ ی باتیں کرنا جانتے ہیں۔ مگر انصاف کا جب وقت آتا ہے تو پیچھے ہٹنا آپ لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو شخص کسی جرم میں رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے وہ بھی آپ کی معزز عدالت سے باعزت بری ہوکر جاتا ہے۔ اور جو ایماندار شخص اس جرم کرنے والے کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہے وہ اللہ میاں کو پیارا ہوجاتا ہے۔ یہ ہے آپ کا انصاف۔ اور یہ ہے آپ کی عدالتیں۔ بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ کے گھر سے ملنے والا خزانہ ہو یا ڈاکٹر عاصم حسین کرپشن کیس۔ یہ ہماری اولادیں بھی آکر دیکھیں گی کہ یہ کیس اب تک چل رہے ہوں گے۔ یہ معاملات حل کرنا آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں رات کے اندھیرے میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہوں کی آہیں موجود ہیں۔ جن پر آج تک کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ یہاں غریب کے گھر میں چولہا نہیں جلتا وہ آپ کے پرتعیش عدالتوں کی فیس کہاں سے جمع کراسکتا ہے۔ وکیل کو کہاں سے فیس دے۔ معذرت کے ساتھ کہوں گاکہ آپ لوگوں کی وکیلوں سے ملی بھگت کی وجہ سے انصاف ہم سے اور ہم انصاف سے کوسوں میل دور ہیں۔ ایک معمولی کیس یوں سمجھ لیں کہ ایک شناختی کارڈ میں نام کی غلطی کا مسئلہ ہوجائے جو آپ کے ہی سرکاری ادارے کے سرکاری لوگوں کی غلطی سے ہواہو۔ اسے صحیح کرانے میں بھی غریب کی آدھی زندگی گزرجاتی ہے۔ اول تو اپنے پاکستانی شہری کو کوئی سہولت اتنی آسانی ملتی نہیں ۔ اور اگر مل جائے تو وہ لاکھوں میں کوئی ایک ہی ہوگاجس نے اپنی آدھی زندگی آپ لوگوں کے پیچھے لگ کر اپنا حق حاصل کیاہو۔ میں اس ملک کا شہری ہوں مگر سچ کہتا ہوں کہ مجھے آپ کے سسٹم اور آپ لوگوں سے خوف آتا ہے۔ آپ کی پولیس سے خوف آتا ہے آپ کے نظام سے خوف آتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ ہم نے تو جیسے تیسے اپنی زندگی آپ لوگو ں کی انصافیاں دیکھتے ہوئے گزار دیں مگر ہماری آنے والی نسل کس طرح اس کو دیکھے گی۔ ان کے ساتھ آپ کا یہ کرپٹ سسٹم کیسا سلوک کرے گا۔ ہم غریب ہیں اور اس ملک میں غریب کی اولاد بھی غریب ہی ہوتی ہے۔ وہ کس طرح آپ لوگوں سے اپنا حق مانگے گی۔ اول تو یہ جسارت کرپائے گی کہ وہ اپنا حق مانگ سکیں ۔؟
مجھے کوئی امید نہیں کہ آپ لوگ اس کرپٹ سسٹم کو بہتر کریں گے۔ اور فوری انصاف کا جو کھوکھلا نعرہ آئے روز میڈیا پر سنائی دیتا ہے اس پر عمل بھی کریں گے۔ اپنے عزیز وطن کے سرکاری اداروں کی ناانصافیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اس پر اگرکوئی کتاب لکھنا چاہے تو شاید اس کی پوری زندگی اس میں تباہ وبرباد ہوجائے مگر وہ پھر بھی مکمل نہ ہو۔آخر یہ نہیں کہوں گاکہ اب بھی وقت ہے اپنی آنکھیں کھولیں۔اور جو غریب آپ لوگوں سے انصاف کی امید رکھتا ہے اس پرپورا اتریں ان کی امیدوں کے چراغ کو بجھنے نہ دیں۔ مگر یہ کہنااب فضول ہوگا۔ کیوں کہ میرے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ معلوم نہیں کہ کل کو اس کالم کے لکھنے پر مجھ پر ہی کوئی کیس دائر ہوجائے۔
Comments
Post a Comment