گیلپ سروے۔ اس کی رپورٹ اعتماد کرنا ایسا ہے جیسے اندھے کو ریوڑھیاں دے کر بانٹنے کا کہا جائے۔ 400روپے کی دیہاڑی والاشخص ایک گھنٹہ میں پورا سروے گھربیٹھ کر کرلیتا ہے۔
پپو ۔۔جمہوریت کیا ہے؟ ٹیچر ۔۔جمہوریت اس بلا کا نام ہے جس میں ہر غیر قانونی کام قانون کے دائرے میں رہ کر کیاجاسکتا ہے۔ پپو۔۔۔کیا جمہوریت میں لوگوں کو روزگار ملتا ہے؟ ٹیچر۔۔جی ہاں ۔ کیوں نہیں روزگار ملتا ہے اور کمیشن بھی ملتا ہے۔ مگر اس کے لیے شرط صرف اتنی ہوتی ہے کہ آپ قابل بالکل بھی نہ ہوں اور سفارش کسی وزیر ، مشیر، ایم این اے ، ایم پی اے کی ہونی چاہے۔ یا پھر سیدھا وزیراعظم سے کہلواکر کسی بھی قومی ادارے کا سربراہ بن جائیں۔ پپو۔۔پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ تو پھر آئین اسلامی کیوں نہیں؟ ٹیچر ۔۔پاکستان اسلام کے نام پر ضرور بنا ۔ مگر وہ صرف دکھاوے کے لیے تھا۔ اصل میں پاکستان امریکی کالونی کے لیے بنایا گیا ہے۔ پپو۔ ۔ کیا میں پاکستان کا وزیراعظم بن سکتا ہوں؟ ٹیچر۔۔ ہاں کیوں نہیں۔ مگر اس کے لیے تمہیں ابھی سے اسکول چھوڑ کر کسی پارٹی کو جوائن کرنا ہوگا۔ پپو۔۔ کیا وزیراعظم بننے کے لیے تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی؟ ٹیچر۔۔ نہیں ۔وزیراعظم بننے کے لیے تمہیں اچھا جھوٹ بولنا آتا ہو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی ڈگری وزیراعظم بننے کے بعد بہت سی یونیورسٹیاں تمہیں خود آکر دے دی...
عارف میمن ۔ چیف جسٹس آف پاکستان فرماتے ہیں کہ کرپشن اور نااہلی کی بیماری ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ٗ ہمیں ملک سے کرپشن اورنااہلی کی بیماری ختم کرنیکی ضرورت ہے‘ عدالتوں میں 60 فیصد مقدمات سرکاری اداروں کی نااہلی ٗ بے حسی اور بد انتظامی کا نتیجہ ہیں ٗاس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ گڈ گورنس کا ماحول پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ججز یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دیں کہ وہ حاکم ہیں۔ججز عوام کے خادم ہیں جو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔ درست فرمایا جناب آپ نے۔ ججز حاکم نہیں خادم ہیں۔ مگر وہ کونسا جج ہے جو خادم ہے؟ ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے کہ پولیس کی اور سیاست دانوں کی طرح اب جج بھی ہمارے خادم ہوگئے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اس ملک میں ہر اعلیٰ عہدے پر بیٹھا شخص جب کسی تقریب میں مدعو کیاجاتا ہے تو وہاں وہ بہت سنہرے قول فرماتا ہے مگر جب عملی اقدامات کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے یہ وہ ہی پیچھے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں اپنی کرسی اور عہدے سے اس قدر لگاؤ ہوتا ہے کہ ملک ڈوبتا ہے توڈوب جائے م...
عارف میمن لگتا ہے الطاف حسین اور عمران خان دونوں کزن ہیں۔ الطاف نے اپنی سندھ کی مضبوط ترین پارٹی کو متنازع بناکراسے کئی حصوں میں تقسیم کردیا اور عمران خان اپنی اچھی خاصی مقبولیت کو نازیبا بیانات دے کر مسلسل گرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس طرح الطاف حسین کے بیان پر رات بھر رابطہ کمیٹی صفائیاں دیتی رہتی تھی۔ آج کل یہ ہی صورت حال عمران کی پارٹی کے لوگوں کے ساتھ ہورہی ہے۔ وہ بچارے بھی رات رات بھر مختلف چینلز پر عمران خان کے بیان پر وضاحتیں دے رہے ہوتے ہیں۔ کل تک عمران خان ایک لیڈر کے طورپر جاناجاتا تھا مگر اب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ صرف مخصوص گروہ کے گرد ہی اپنی سیاست کررہے ہیں ۔ان کی اسی پالیسیوں کی وجہ سے عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی نے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں ن لیگ سے زبردست قسم کی شکست کھائی۔ اور اب جب ک 2018ءمیں قومی الیکشن ہونے جارہے ہیں ایسے میں انہی الیکشن کی بھرپور تیاری کرنی چاہیے نہ وہ اس طرح کے متنازع بیانات دے کر اپنی ساکھ کو نقصان پہنچائیں۔ ان کا یہ بیان تمام پاکستانیوں کے لیے سخت مایوس کن ثابت ہوا جب انہوںنے یہ کہاکہ پی ایس ایل فائنل میں تمام پھٹیچر غیرملکی کھلاڑی ش...
Comments
Post a Comment