ڈار صاحب ۔۔۔ تھوڑا حوصلہ رکھیں۔
ڈار صاحب ۔۔۔ تھوڑا حوصلہ رکھیں۔
عارف میمن
گزشتہ روز جے آئی ٹی میں وزیراعظم کے سمدھی جی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب پیش ہوئے۔ جے آئی ٹی میں پیشی سے قبل چوہدری نثار کے ساتھ ان کی چند تصاویر میڈیا پر نظرآئیں جن میں وہ کافی ہشاش بشاش نظرآرہے تھے۔ کپڑوں کو کلف لگا ہوا صاف دکھ رہا تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد جب وہ باہر آئے تو نہ ان کے چہرے پر کوئی شادمانی تھی اور نہ ہی لبوں پرشیریں۔ حال ایسا کہ گرمی سے پسینے پسینے ہورہے تھے،اور غصہ ایسا کہ ابھی پورے ملک میں مارشل لاہ لگا کر جے آئی ٹی ارکان کو پھانسی کا حکم سنادیں۔ آخر ایسا کیا ہوا تھا ان کے ساتھ کہ ڈار صاحب کا لب ولہجہ بالکل ہی تبدیل ہوگیا۔
ہم نے سنا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے کہ ڈار صاحب ہمیشہ تحمل سے کام لیتے ہیں اور جن صاحب کے ساتھ وہ جے آئی ٹی کے دفتر تشریف لائے تھے وہ بھی کچھ اسی انداز کے مالک ہیں۔ غصہ چاہیے جتنا بھی ہو مگر بات کرتے ہوئے تحمل اور بردباری کا لحاظ مخلوط رکھتے ہیں۔ لیکن آج ڈار صاحب کے تیور ہی کچھ اور تھے شاید جے آئی ٹی ارکان نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا اس لیے ان کی تمام برداشت ختم ہوگئی اور وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔ ایسا ہونا جائز بات بھی ہے کیوں کہ پہلے مسئلہ کچھ اور تھا لیکن اب حکومت میں رہتے ہوئے وزیرخزانہ کی سیٹ پر بیٹھے بندے کے ساتھ اس طرح کیاجائے تو کوئی بھی شخص بھڑک سکتا ہے۔
تاہم ہماری تمام تر ہمدردیاں ڈار صاحب کے ساتھ ہیں۔ لیکن اب چند باتیں ان کی ماضی اور کچھ حال کی کریں گے امید کرتا ہوں کہ ڈار صاحب برا نہیں مانیں گے۔
چندعرصہ قبل جب موجودہ وزیراعظم کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل بھیج دیاگیا اور اس کے بعد ایک معاہدے کے تحت اس وزیراعظم کو سعودیہ عرب کو گود دے دیاگیا اس وقت ڈار صاحب نے تحریری طورپر نیب کو ایک بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں اس وزیراعظم کے خلاف منی لانڈرنگ کا ذکر کیاگیا اور بتایاگیا کہ کس طرح پیسہ باہر اسمگل کیاگیااور کس کس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے۔ اس بیان کے بعد وہ وعدہ گواہ معافی کے حقدار ٹھہرے اور کیس بند کردیاگیا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ شاید ڈار صاحب نے اس وقت سوچ لیاتھا کہ سب سے اچھا موقع بھی یہ ہی ہے اپنی جان بخشی کرائی جائے باقی رشتے فی الحال سائیڈ پر رکھنے میں عافیت ہے۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اگر انہیں اس بات کا ذرا بھی علم ہوتا کہ کچھ عرصے بعد وہ شخص جو سعودیہ عرب کو چند سال کے لیے گوددیاگیاتھا واپس آکر ایک دن پھروزیراعظم بنے گا تو شاید ڈار صاحب یہ غلطی کبھی نہ کرتے۔ مگر اب کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ بہرحال ڈار صاحب کا وہ تحریری حلف نامہ آج ان کے سامنے ان کی منہ چڑا رہا ہے اور وہ برا مان رہے ہیں۔ جے آئی ٹی ارکان یا عمران خان پر برسنے کی انہیں کوئی ضرورت نہیں ۔بقول ان کے مریم نواز کے پاس کوئی نہ تو کوئی پارٹی عہدہ ہے اور نہ ہی وہ حکومت میں ہیں اور نہ وہ سیاست میں ہیں مگر یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے جو میڈیا سیل چل رہا ہے وہ اسی صاحبزادی کی زیر نگرانی چل رہا ہے اور اس وقت وہ سیاست میں بلاول بھٹو سے زیادہ مشہور ہیں۔ جب مریم نواز کے پاس کوئی عہدہ نہیں تو اس وقت عمران خان کے پاس کون سا عہدہ تھا۔ آج ڈار صاحب کی بہو پر بات آئی تو ڈار صاحب چلا اٹھے۔ مگر جب آپ کی ہی پارٹی کے لوگ کبھی جمائما تو کبھی رحام خان کی بات کرتے تھے تو اس وقت آپ کو کسی کی بہن بیٹی یاد نہیں آتی تھی۔ آپ نے آج اپنی تقریر میں چیخ چیخ کر کہا کہ عمران کو نااہل کرنے کے لیے کیلی فورنیا کا کیس ہی کافی ہے۔ عمران خان چھپ چھپ کر شادیاں کرتے ہیں جمائماکے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا ۔ اگر جے آئی ٹی میں عمران خان کی بہنوں کو بلایاجاتا تو انہیں بھی برا لگتا۔ عمران خان چور ہیں ،ٹیکس اور عطیات کے پیسوں سے جوا کھیلتا ہے۔ واہ جناب ڈار صاحب کیا تشریح کی ہے آپ نے عمران خان صاحب کی زندگی کی۔ مگر آج آپ بات کرتے ہوئے یہ تو بھول گئے کہ یہ وہ ہی عمران خان ہے جس نے دوہزار تیرہ کے الیکشن میں آپ کی پارٹی کو ٹف ٹائم دیا تھا۔ اس وقت نہ تو کوئی کرپشن کی بات تھی اور نہ ہی پانامہ کا کوئی نام ونشان ۔ مجھے اچھی طرح یاد اس وقت بھی عمران خان کا یہ ہی نعرہ تھا کہ یہ باریاں اب ختم ہونی چاہییں۔ اور آج بھی اس کا یہ ہی نعرہ ہے کہ باریاں ختم ہونی چاہیں۔ آپ کی پارٹی نے پورے خاندان کو اہم عہدوں پر فائز کیا ہوا ہے اور یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر عمران خان ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالتا ہے تو اس سے ملک کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا البتہ آپ لوگوں کا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس شخص کو میں نے غریب بستیوں میں جاتے دیکھا ہے مگر آپ لوگوں کو آج تک اپنے حلقے میں گھومتے نظرنہیں آئے۔ وہ کہیں بیٹھ جاتا ہے بنا سوچے سمجھے کہ یہ جگہ اس کے قابل ہے یا نہیں۔ وہ عوام سے گھل مل جانے والا شخص ہے مگر آپ عوام کو ڈسنے سے باز نہیں آتے۔ دوہزار تیرہ میں آپ کا نعرہ تھا کہ زرداری کاپیٹ چیر کر پیسے نکالیں گے۔ اسے سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ مگر کیا ہوا ن نعروں کا جو آپ نے لگائے تھے۔ بجلی بحران پر آپ کے ہی وزیراعلیٰ نے دھرنا دیا تھا۔ اس وقت یہ کہا تھا کہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے۔ آج چار سال پورے ہونے کوآئے ہیں مگر نہ تو لوڈشیڈنگ ختم ہوئی اور نہ ہی کسی کا پیٹ چیر کر پیسے نکالیں گے اور نہ ہی کسی کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ آپ نے تو وعدہ کیاتھا کہ ہم کشکول توڑ دیں گے۔ مگر شاید اگلی لائن عوام کو بتانا بھول گئے کہ یہ کشکول توڑ کر اس سے دگنا بڑا کشکول لے کر آئیں گے۔ آج اگر قوم آپ سے حساب مانگتی ہے تو آپ ناراض ہورہے ہیں۔ آپ یہ مت بھولیں کہ آپ پبلک پراپرٹی ہیں اور پبلک آپ سے ہر سوال پوچھنے کاحق رکھتی ہے اور آپ اس کے ہر سوال کا جواب دینے پابند ہیں۔ آپ اور آپ کی پارٹی فرماتی ہے کہ پورا ملک آپ کے ساتھ ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دوہزار تیرہ کے الیکشن کی کاپیاں نکال کر دیکھ لیں ۔آدھے سے زیادہ ملک نے آپ کو رجیکٹ کیا ہے۔کراچی جیسے شہر میں آپ کی ایک بھی موجود نہیں اور جو ایک سیٹ تھی وہ بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ کے پی کے میں آپ اپوزیشن میں ہیں بلوچستان میں آپ اپوزیشن میں ہیں سندھ میں آپ کا نام ونشان نہیں صرف پنجاب کی حد تک آپ لوگ موجود ہیں اور اسے آپ پورا پاکستان کہتے ہیں تو پھر آپ کی سوچ کو سلام ہے۔ اور ہم پھر اس طرف بھی سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ شاید آپ کی نظر میں پنجاب ہی پورا پاکستان ہے اس لیے زیادہ توجہ بھی وہاں دی جاتی ہے باقی صوبے لاوارث ہیں جنہیں دینے کے لیے آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔
تقریبا روزانہ ہی آپ کے منہ سے ایک ہی بات نکلتی ہے کہ معیشت بہتر ہورہی ہے، سی پیک ملک کوترقی کی شاہراہ پر لے جائے گا۔ دشمن ملک کی ترقی سے جلتے ہیں اس لیے وہ سازشیں کرتے پھرتے ہیں۔ میری سمجھ میںآج تک یہ بات نہیں آئی کہ اگر ملک ترقی کررہا ہے تو ہمیں کیوں نہیں دکھ رہا ۔ اور اگر سی پیک ملک کی تقدیر بدل رہاہے تو جہاں سے سی پیک شروع ہوتا ہے اس علاقے کی قسمت اب تک کیوں نہیں چمکی۔ گوادر آج بھی پسماندہ علاقوں میں کیوں کرشامل ہے۔ وہاں آج بھی بے روزگاری ہے وہاں کے لوگ آج بھی پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ بجلی کا وہاں کوئی نام ونشان تک نہیں۔ اسکولوں کی حالت ایسی ہے کہ وہاں جانووروں کو بھی چند گھنٹے ٹھہرایاجائے تو وہ بھی بھاگ جائیں۔ پھر آپ کیسے اتنا بڑ ا جھوٹ عوام کے سامنے بول دیتے ہیں ملک ترقی کررہا ہے۔ اگر ترقی کررہا ہے تو پھر ایشین بینک ،ورلڈبینک کے آگے بھکاری کیوں بن جاتے ہو۔ کیوں ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑ ہوکر ملک کو بدنام کرتے رہتے ہو۔ اگر ہم ترقی کررہے ہیں تو کیوں امریکا کے سامنے زبان بند ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہم ترقی نہیں بلکہ زوال پذیر ہورہے ہیں۔آپ وہ ہی گیم پاکستانیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں جو مسٹر شوکت عزیز نے کھیلا تھا۔ صرف ہندسوں کا ہیرپھیر کرکے آپ ملک کو کاغذوں کی حد تک دنیا کا سب سے ترقی پذیر ملک تو بناسکتے ہیں مگر درحقیقت ہماری قوم کی حالت اس وقت صومالیہ جیسی اگر نہیں بھی ہے تو کم از کم اس سے بہتر بھی نہیں کہی جاسکتی۔ آپ کو صرف ایک عمران خان ہی نظرآتا ہے کہ وہ ہی ملک کے خلاف سازشیں کررہا ہے مگر حقیقت میں جو سازشیں آپ کا دوست مود ی کررہاہے اور وہ اپنے منہ سے کہتا بھی اور اپنے لوگوں سے کرواتا ہے اس کے خلاف آپ نے یا آپ کے عظیم وزیراعظم نے ایک لفظ بھی منہ نہیں نکالا۔ صرف چودہ اگست کو ایک روایتی بیان داغ دینے سے کچھ نہیں ہوتاکہ ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے بلکہ اس ناقابل تسخیر کو دفاع کو استعمال بھی کیا جائے۔ قوم اپنا خون پسینہ آپ کو دیتی ہے جو اس دفاع پر خرچ ہوتا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ لوگ اس دفاع کے نام پر عوام کو ہی بے وقوف بنائے۔
جب سپریم کورٹ نے کمیشن بنانے کا اعلان کیاتوسب سے زیادہ آپ اور آپ کی پارٹی کے لوگ تھے۔ مگر اتفاق سے وہ کمیشن آپ لوگوں کی فرمائش پر نہیں بنا تو اب سب سے زیادہ مخالفت آپ لوگوں کے سامنے سے آرہی ہے۔ اگر آپ لوگوں نے کچھ نہیں کیاتو پھر گھبرانے کی ضرورت ہے اسے اپنا کام کرنے دیں اور دوماہ کی تو بات تھی صبر وتحمل سے نکال لیتے۔ مگر اب جب کہ آپ کو اور آپ کی پارٹی کو علم ہوچکا ہے کہ تمام تر کیس ہمارے خلاف جارہاہے تو آپ لوگوں نے واویلا مچاکر اسے متنازع بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ عدالت تک کو آپ نے عوام کی نظر میں گندہ کردیاہے ۔
میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ برائے مہربانی بس چند دن کی بات اور ہے صبر کریں ۔ اگر فیصلہ آپ کے حق میں آگیا تو مٹھائی بانٹے اور حکومت کریں اور اگر مخالفت میں آجائے تو پلیز صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر خود کو عوام کے سامنے سزا کے لیے پیش کردیں۔ تاکہ ملک بہتر انداز میں ترقی کرسکے۔ اور ادارے بھی اپنی عزت کو محفوظ رکھ سکیں۔ ورنہ آج جس طرح آپ اداروں کو ذلیل کررہے ہیں کل آپ لوگ ہی اس ادارے میں کھڑے ہوکر ذلیل ہورہے ہوں گے۔ کیوں کہ بادشاہت ساری زندگی کے لیے آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔اور ہر عروج کا ایک دن زوال ضرورہوتا ہے۔
عارف میمن
گزشتہ روز جے آئی ٹی میں وزیراعظم کے سمدھی جی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب پیش ہوئے۔ جے آئی ٹی میں پیشی سے قبل چوہدری نثار کے ساتھ ان کی چند تصاویر میڈیا پر نظرآئیں جن میں وہ کافی ہشاش بشاش نظرآرہے تھے۔ کپڑوں کو کلف لگا ہوا صاف دکھ رہا تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد جب وہ باہر آئے تو نہ ان کے چہرے پر کوئی شادمانی تھی اور نہ ہی لبوں پرشیریں۔ حال ایسا کہ گرمی سے پسینے پسینے ہورہے تھے،اور غصہ ایسا کہ ابھی پورے ملک میں مارشل لاہ لگا کر جے آئی ٹی ارکان کو پھانسی کا حکم سنادیں۔ آخر ایسا کیا ہوا تھا ان کے ساتھ کہ ڈار صاحب کا لب ولہجہ بالکل ہی تبدیل ہوگیا۔
ہم نے سنا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے کہ ڈار صاحب ہمیشہ تحمل سے کام لیتے ہیں اور جن صاحب کے ساتھ وہ جے آئی ٹی کے دفتر تشریف لائے تھے وہ بھی کچھ اسی انداز کے مالک ہیں۔ غصہ چاہیے جتنا بھی ہو مگر بات کرتے ہوئے تحمل اور بردباری کا لحاظ مخلوط رکھتے ہیں۔ لیکن آج ڈار صاحب کے تیور ہی کچھ اور تھے شاید جے آئی ٹی ارکان نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا اس لیے ان کی تمام برداشت ختم ہوگئی اور وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔ ایسا ہونا جائز بات بھی ہے کیوں کہ پہلے مسئلہ کچھ اور تھا لیکن اب حکومت میں رہتے ہوئے وزیرخزانہ کی سیٹ پر بیٹھے بندے کے ساتھ اس طرح کیاجائے تو کوئی بھی شخص بھڑک سکتا ہے۔
تاہم ہماری تمام تر ہمدردیاں ڈار صاحب کے ساتھ ہیں۔ لیکن اب چند باتیں ان کی ماضی اور کچھ حال کی کریں گے امید کرتا ہوں کہ ڈار صاحب برا نہیں مانیں گے۔
چندعرصہ قبل جب موجودہ وزیراعظم کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل بھیج دیاگیا اور اس کے بعد ایک معاہدے کے تحت اس وزیراعظم کو سعودیہ عرب کو گود دے دیاگیا اس وقت ڈار صاحب نے تحریری طورپر نیب کو ایک بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں اس وزیراعظم کے خلاف منی لانڈرنگ کا ذکر کیاگیا اور بتایاگیا کہ کس طرح پیسہ باہر اسمگل کیاگیااور کس کس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے۔ اس بیان کے بعد وہ وعدہ گواہ معافی کے حقدار ٹھہرے اور کیس بند کردیاگیا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ شاید ڈار صاحب نے اس وقت سوچ لیاتھا کہ سب سے اچھا موقع بھی یہ ہی ہے اپنی جان بخشی کرائی جائے باقی رشتے فی الحال سائیڈ پر رکھنے میں عافیت ہے۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اگر انہیں اس بات کا ذرا بھی علم ہوتا کہ کچھ عرصے بعد وہ شخص جو سعودیہ عرب کو چند سال کے لیے گوددیاگیاتھا واپس آکر ایک دن پھروزیراعظم بنے گا تو شاید ڈار صاحب یہ غلطی کبھی نہ کرتے۔ مگر اب کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ بہرحال ڈار صاحب کا وہ تحریری حلف نامہ آج ان کے سامنے ان کی منہ چڑا رہا ہے اور وہ برا مان رہے ہیں۔ جے آئی ٹی ارکان یا عمران خان پر برسنے کی انہیں کوئی ضرورت نہیں ۔بقول ان کے مریم نواز کے پاس کوئی نہ تو کوئی پارٹی عہدہ ہے اور نہ ہی وہ حکومت میں ہیں اور نہ وہ سیاست میں ہیں مگر یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے جو میڈیا سیل چل رہا ہے وہ اسی صاحبزادی کی زیر نگرانی چل رہا ہے اور اس وقت وہ سیاست میں بلاول بھٹو سے زیادہ مشہور ہیں۔ جب مریم نواز کے پاس کوئی عہدہ نہیں تو اس وقت عمران خان کے پاس کون سا عہدہ تھا۔ آج ڈار صاحب کی بہو پر بات آئی تو ڈار صاحب چلا اٹھے۔ مگر جب آپ کی ہی پارٹی کے لوگ کبھی جمائما تو کبھی رحام خان کی بات کرتے تھے تو اس وقت آپ کو کسی کی بہن بیٹی یاد نہیں آتی تھی۔ آپ نے آج اپنی تقریر میں چیخ چیخ کر کہا کہ عمران کو نااہل کرنے کے لیے کیلی فورنیا کا کیس ہی کافی ہے۔ عمران خان چھپ چھپ کر شادیاں کرتے ہیں جمائماکے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا ۔ اگر جے آئی ٹی میں عمران خان کی بہنوں کو بلایاجاتا تو انہیں بھی برا لگتا۔ عمران خان چور ہیں ،ٹیکس اور عطیات کے پیسوں سے جوا کھیلتا ہے۔ واہ جناب ڈار صاحب کیا تشریح کی ہے آپ نے عمران خان صاحب کی زندگی کی۔ مگر آج آپ بات کرتے ہوئے یہ تو بھول گئے کہ یہ وہ ہی عمران خان ہے جس نے دوہزار تیرہ کے الیکشن میں آپ کی پارٹی کو ٹف ٹائم دیا تھا۔ اس وقت نہ تو کوئی کرپشن کی بات تھی اور نہ ہی پانامہ کا کوئی نام ونشان ۔ مجھے اچھی طرح یاد اس وقت بھی عمران خان کا یہ ہی نعرہ تھا کہ یہ باریاں اب ختم ہونی چاہییں۔ اور آج بھی اس کا یہ ہی نعرہ ہے کہ باریاں ختم ہونی چاہیں۔ آپ کی پارٹی نے پورے خاندان کو اہم عہدوں پر فائز کیا ہوا ہے اور یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر عمران خان ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالتا ہے تو اس سے ملک کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا البتہ آپ لوگوں کا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس شخص کو میں نے غریب بستیوں میں جاتے دیکھا ہے مگر آپ لوگوں کو آج تک اپنے حلقے میں گھومتے نظرنہیں آئے۔ وہ کہیں بیٹھ جاتا ہے بنا سوچے سمجھے کہ یہ جگہ اس کے قابل ہے یا نہیں۔ وہ عوام سے گھل مل جانے والا شخص ہے مگر آپ عوام کو ڈسنے سے باز نہیں آتے۔ دوہزار تیرہ میں آپ کا نعرہ تھا کہ زرداری کاپیٹ چیر کر پیسے نکالیں گے۔ اسے سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ مگر کیا ہوا ن نعروں کا جو آپ نے لگائے تھے۔ بجلی بحران پر آپ کے ہی وزیراعلیٰ نے دھرنا دیا تھا۔ اس وقت یہ کہا تھا کہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے۔ آج چار سال پورے ہونے کوآئے ہیں مگر نہ تو لوڈشیڈنگ ختم ہوئی اور نہ ہی کسی کا پیٹ چیر کر پیسے نکالیں گے اور نہ ہی کسی کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ آپ نے تو وعدہ کیاتھا کہ ہم کشکول توڑ دیں گے۔ مگر شاید اگلی لائن عوام کو بتانا بھول گئے کہ یہ کشکول توڑ کر اس سے دگنا بڑا کشکول لے کر آئیں گے۔ آج اگر قوم آپ سے حساب مانگتی ہے تو آپ ناراض ہورہے ہیں۔ آپ یہ مت بھولیں کہ آپ پبلک پراپرٹی ہیں اور پبلک آپ سے ہر سوال پوچھنے کاحق رکھتی ہے اور آپ اس کے ہر سوال کا جواب دینے پابند ہیں۔ آپ اور آپ کی پارٹی فرماتی ہے کہ پورا ملک آپ کے ساتھ ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دوہزار تیرہ کے الیکشن کی کاپیاں نکال کر دیکھ لیں ۔آدھے سے زیادہ ملک نے آپ کو رجیکٹ کیا ہے۔کراچی جیسے شہر میں آپ کی ایک بھی موجود نہیں اور جو ایک سیٹ تھی وہ بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ کے پی کے میں آپ اپوزیشن میں ہیں بلوچستان میں آپ اپوزیشن میں ہیں سندھ میں آپ کا نام ونشان نہیں صرف پنجاب کی حد تک آپ لوگ موجود ہیں اور اسے آپ پورا پاکستان کہتے ہیں تو پھر آپ کی سوچ کو سلام ہے۔ اور ہم پھر اس طرف بھی سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ شاید آپ کی نظر میں پنجاب ہی پورا پاکستان ہے اس لیے زیادہ توجہ بھی وہاں دی جاتی ہے باقی صوبے لاوارث ہیں جنہیں دینے کے لیے آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔
تقریبا روزانہ ہی آپ کے منہ سے ایک ہی بات نکلتی ہے کہ معیشت بہتر ہورہی ہے، سی پیک ملک کوترقی کی شاہراہ پر لے جائے گا۔ دشمن ملک کی ترقی سے جلتے ہیں اس لیے وہ سازشیں کرتے پھرتے ہیں۔ میری سمجھ میںآج تک یہ بات نہیں آئی کہ اگر ملک ترقی کررہا ہے تو ہمیں کیوں نہیں دکھ رہا ۔ اور اگر سی پیک ملک کی تقدیر بدل رہاہے تو جہاں سے سی پیک شروع ہوتا ہے اس علاقے کی قسمت اب تک کیوں نہیں چمکی۔ گوادر آج بھی پسماندہ علاقوں میں کیوں کرشامل ہے۔ وہاں آج بھی بے روزگاری ہے وہاں کے لوگ آج بھی پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ بجلی کا وہاں کوئی نام ونشان تک نہیں۔ اسکولوں کی حالت ایسی ہے کہ وہاں جانووروں کو بھی چند گھنٹے ٹھہرایاجائے تو وہ بھی بھاگ جائیں۔ پھر آپ کیسے اتنا بڑ ا جھوٹ عوام کے سامنے بول دیتے ہیں ملک ترقی کررہا ہے۔ اگر ترقی کررہا ہے تو پھر ایشین بینک ،ورلڈبینک کے آگے بھکاری کیوں بن جاتے ہو۔ کیوں ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑ ہوکر ملک کو بدنام کرتے رہتے ہو۔ اگر ہم ترقی کررہے ہیں تو کیوں امریکا کے سامنے زبان بند ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہم ترقی نہیں بلکہ زوال پذیر ہورہے ہیں۔آپ وہ ہی گیم پاکستانیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں جو مسٹر شوکت عزیز نے کھیلا تھا۔ صرف ہندسوں کا ہیرپھیر کرکے آپ ملک کو کاغذوں کی حد تک دنیا کا سب سے ترقی پذیر ملک تو بناسکتے ہیں مگر درحقیقت ہماری قوم کی حالت اس وقت صومالیہ جیسی اگر نہیں بھی ہے تو کم از کم اس سے بہتر بھی نہیں کہی جاسکتی۔ آپ کو صرف ایک عمران خان ہی نظرآتا ہے کہ وہ ہی ملک کے خلاف سازشیں کررہا ہے مگر حقیقت میں جو سازشیں آپ کا دوست مود ی کررہاہے اور وہ اپنے منہ سے کہتا بھی اور اپنے لوگوں سے کرواتا ہے اس کے خلاف آپ نے یا آپ کے عظیم وزیراعظم نے ایک لفظ بھی منہ نہیں نکالا۔ صرف چودہ اگست کو ایک روایتی بیان داغ دینے سے کچھ نہیں ہوتاکہ ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے بلکہ اس ناقابل تسخیر کو دفاع کو استعمال بھی کیا جائے۔ قوم اپنا خون پسینہ آپ کو دیتی ہے جو اس دفاع پر خرچ ہوتا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ لوگ اس دفاع کے نام پر عوام کو ہی بے وقوف بنائے۔
جب سپریم کورٹ نے کمیشن بنانے کا اعلان کیاتوسب سے زیادہ آپ اور آپ کی پارٹی کے لوگ تھے۔ مگر اتفاق سے وہ کمیشن آپ لوگوں کی فرمائش پر نہیں بنا تو اب سب سے زیادہ مخالفت آپ لوگوں کے سامنے سے آرہی ہے۔ اگر آپ لوگوں نے کچھ نہیں کیاتو پھر گھبرانے کی ضرورت ہے اسے اپنا کام کرنے دیں اور دوماہ کی تو بات تھی صبر وتحمل سے نکال لیتے۔ مگر اب جب کہ آپ کو اور آپ کی پارٹی کو علم ہوچکا ہے کہ تمام تر کیس ہمارے خلاف جارہاہے تو آپ لوگوں نے واویلا مچاکر اسے متنازع بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ عدالت تک کو آپ نے عوام کی نظر میں گندہ کردیاہے ۔
میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ برائے مہربانی بس چند دن کی بات اور ہے صبر کریں ۔ اگر فیصلہ آپ کے حق میں آگیا تو مٹھائی بانٹے اور حکومت کریں اور اگر مخالفت میں آجائے تو پلیز صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر خود کو عوام کے سامنے سزا کے لیے پیش کردیں۔ تاکہ ملک بہتر انداز میں ترقی کرسکے۔ اور ادارے بھی اپنی عزت کو محفوظ رکھ سکیں۔ ورنہ آج جس طرح آپ اداروں کو ذلیل کررہے ہیں کل آپ لوگ ہی اس ادارے میں کھڑے ہوکر ذلیل ہورہے ہوں گے۔ کیوں کہ بادشاہت ساری زندگی کے لیے آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔اور ہر عروج کا ایک دن زوال ضرورہوتا ہے۔
Comments
Post a Comment