روزہ اور قوت برداشت

روزہ اور قوت برداشت

وہ لوگ روزے نہ رکھیں جن میں قوت برداشت نہیں۔

روزے کے انگنت فائدے ہیں جو تقریبا ہر مسلمان کو معلوم بھی ہیں۔ مگر آج روزے کی افادیت پر بات نہیں کریں گے بلکہ ان لوگوں پر بات کریں گے جن کی قوت برداشت بالکل نہیں۔ میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں اکثریت پختونوں کی ہے ، جن کا معمولی معمولی پر لڑائی جھگڑا معمول کی بات ہے،تاہم رمضان المبارک میں ان واقعات میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے کئی واقعات میری آنکھوں کے سامنے کے ہیں جو آپ کے گوش گزار کررہا ہوں۔
چند دن پہلے ایک موٹر سائیکل سوار نے ایک راہ گیر کو ٹکر ماردی ۔راہگیر نے صرف اتنا کہا کہ بھائی دیکھ کر نہیں چلا سکتے۔ اس کے یہ الفاظ اس موٹر سائیکل سوار کو اتنے ناگوار گزرے کہ اس نے موٹر سائیکل ایک سائیڈ پر لگاکر اس راہگیر کو مارنا شروع کردیا۔ جب لوگوں کا ہجوم لگا اور بیچ بچاؤ کرایا تو معلوم ہوا کہ صاحب روزے سے ہیں اور ان کا دماغ خراب ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اس راہگیر کو مارنا شروع کردیا۔ چند بزرگ شہریوں نے اس موٹر سائیکل سوار سے اپنی زبان میں بات کی اور کہا کہ تم غلطی پر ہو۔ تو آگے سے اس نے یہ کہہ کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کی کہ تمہیں تو میں بعد میں دیکھ لوں گا،اور چلا گیا۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ جس میں ایک شخض تنگ گلی میں موٹر سائیکل اسپیڈ میں لے کر گیا اور آگے جانے والی ایک خاتون کو ٹکر ماردی۔ خاتون بچاری نے اسے کچھ نہیں کہا،اور یہ ہی بات اس موٹر سائیکل سوار کونا گوار گزری کہ اس نے مجھے گالی یا کچھ الٹا سیدھا کیوں نہیں کہا، اورموٹرسائیکل روک کر اس خاتون سے الجھنے لگاکہ تم سائیڈ پر ہوکر نہیں چل سکتیں۔ یہ گلی تمہارے باپ کی ہے ، اتفاق سے میرا گزر بھی وہاں سے ہوا اور یہ سب کچھ میرے سامنے ہی ہواتھا اس لیے میں نے انتہائی آرام سے اس شخص سے کہا دیکھوں غلطی آپ کی ہے آپ نے ہی اس عورت کوٹکر ماری اور اب اس سے اتنی گندی زبان میں بات کررہے ہو۔ آگے سے وہی الٹے سیدھے جواب گندی زبان میں مجھے بھی سننے کو ملے۔ خیر عورت تو چلی گئی،مگر اب ایک اچھا خاصا جھگڑا شروع ہونے والا تھا، کئی اور لوگ بھی گھروں سے نکل آئے اور اس شخص کو سمجھایا کہ دوپہر کا وقت ہے گھرجاؤ آرام کرواور دوسروں کو بھی آرام کرنے دو۔ مگر وہ کہاں ماننے والا تھا،آخر اس نے بھی روزہ رکھا ہواتھا اور روزے میں اس کی تمام تر قوت برداشت ختم ہوچکی تھی۔ صحیح غلط کی تمیز وہ بھول چکا تھا۔ جس شخص نے اسے جانے کے لیے کہا وہ اس پر بھی بھڑک اٹھا اور اچانک اسے تھپڑا ماردیا۔ لیکن یہ تھپڑ اس کے لیے سود مند ثابت نہ ہوسکا،کیوں کہ جواب میں جو اس کی درگت ہوئی شاید وہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔ آخر میں اس نے اپنی یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ میں روزے سے ہوں۔ مجھے جانے دو۔ غلطی ہوگئی روزا دماغ میں چڑھ گیا تھا۔ چند گلی والوں نے جھگڑا ختم کرادیااور وہ گرتے پڑتے اپنے راستے چل پڑا۔
اسی طرح بس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ ویسے تو اپنی پھٹ پھٹی کا استعمال ہی کرتا ہوں مگر اس دن ہماری پھٹ پھٹی کی طبعیت کچھ ناساز تھی اس لیے بس میں جانے میں عافیت جانی۔ بس میں بیٹھنے کے بعد احساس ہوا کہ کراچی والے کس طرح سفرکرتے ہیں۔خیر یہ ایک الگ کہانی ہے،ابھی جو بتانے جا رہا ہوں وہ روزے سے متعلق ہے۔ بس پہلے تو کچھوے کی طرح رینگ رینگ کر چل رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد اس کے پیچھے ایک اور بس آگئی تو اس نے اولمپک میں حصہ لینے کی ٹھان لی۔ نہ جمپ دیکھا نہ کھڈا۔ جہاں اس کا دل کیا وہاں اس نے بس کو رگڑا دیااور ساتھ میں مسافروں کے بھی چودہ طبق روشن کیے۔ جب مسافروں کی برداشت جواب دینے لگی تو ایک نے چیخ کر اسے انسان بننے کی ہدایت کردی۔ مگر یہ ہدایت انہیں نصیب ہوتی ہے جن کے پلے کچھ ہو۔ جن کے دماغ میں ہدایت نام کی کوئی چیز ہیں نہیں تو وہ ہدایت کا لفظ سن کر ہی پاگل ہوجاتے ہیں اور انہیں یہ لگتا ہے کہ شاید یہ گالی ہے۔ خیر ڈرائیور نے جذباتی ہوکر گاڑی ایک سائیڈ پر روکی اور اپنی سیٹ سے اتر کر پیچھے بیٹھے اس شخص کے پاس آیا جس نے اسے انسان بننے کی ہدایت کی تھی اور آتے ہی اس نے اسے مکوں اور لاتوں سے خاطر تواضع کرنا شروع کردی۔ مگر اس کا یہ جذباتی پن اسے مہنگا پڑگیاکیوں کہ وہ شخص اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ اس کے چند دوست بھی پچھلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد بس کا ماحول کنٹرول لائن جیساہوگیا تھا۔ اندھا دھند لاتوں اور مکوں کا استعمال سے کئی مسافر اپنی عافیت خیر جانتے ہوئے بس سے نیچے اترآئے اور کافی دیر بعد وہ مسافر بھی غازی بن کر بس سے نیچے اترے جو اس جنگ میں شریک تھے۔ صرف ایک شخص ہی نیچے نہیں اترا اور وہ تھا اس جنگ کو شروع کرنے والا شیطان۔ تھوڑی دیر بعد ہماری پولیس بھی عیدی مہم کے چکر میں وہاں آدھمکی۔ تمام معاملے کا علم ہونے پر جب وہ اس شیطان کو اٹھا کرباہر لائے تو اس کی حالت انتہائی خراب ہوچکی تھی۔ کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے، ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا، منہ سوج کر غبارہ بنا ہوا تھا۔
خیر جب اس سے پوچھا گیاکہ اس نے یہ حرکت کیوں کہ تو آگے سے یہ ہی جواب ملا کہ روزہ لگ گیا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آیا اور بس ہوگیا۔ تھوڑی دیر توتومیں میں کے بعد معاملہ رفع دفع ہوگیااور بچاری پولیس کسی سے بھی عیدی وصول نہ کرپائی۔
اسی طرح ایک دوست نے بتایا کہ ایک کل کریانہ اسٹور پر گیا سودا لیا۔ پیسے ادا کیے۔سامان اٹھایا تواس میں ایک چیز کم تھی۔ دکاندار سے پوچھا کہ بھئی آپ نے یہ چیز سامان میں رکھی ہے یا نہیں۔ اور یہ بات موصوف کو بری لگی اور اس نے گالی دے کر یہ کہا کہ ہم تمہیں چور لگتا ہے ، ہم تمہارا پیسا کھائے گااور نہ جانے کیسی کیسی کلمات ادا کردیے جس کا میرے دوست کو گمان تک نہیں تھا۔ وہ اس کی ہکا بکا ہوکر اس کی شکل دیکھنے لگا،دکان پرکھڑے دیگر کسٹمر بھی حیران رہ گئے کہ آخر اسے ہوا کیا ہے۔ خیر میرے دوست نے ایک بار پھر انتہائی شرافت کے ساتھ اسے کہا کہ بھئی خیریت تو ہے میں نے صرف پوچھا تھا کہ آپ نے فلاں چیز سامان میں رکھی ہے یا نہیں۔ اس میں کون سی بڑی ہوگئی جو آپ اس قدر بدتمیزی پر اترآئے ہو۔ مگر اسے بھی روزہ لگا ہوا تھا۔ ایک بارپھر اسے میرے دوست کی باتیں ناگوار گزریں۔ اور پھر اس نے اپنی بک بک کے ساتھ ہی اچانک میرے دوست کو مکا جڑ دیا۔ یہ ایک ایسا اچانک حملہ تھا کہ چند لمحوں تک میرے دوست کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیاہے۔ جب اس کے اوسان واپس اپنی جگہ پر آئے تو میرے دوست نے اس کو گریبان سے پکڑا اور سیدھا دکان سے باہر نکال کر روڈ پر پھینک دیا۔ اچھی بھلی دہلائی کے بعد جب اس میں مارکھانے کی اور میرے دوست میں مارنے کی ہمت ختم ہوئی تو اس نے کھڑے ہوکر کھا ۔
سامان میں رکھ دیا تھا، بس روزہ لگ گیا تھا ۔ لوگوں نے بھی اسے کافی لعن تعن کیا اور پھر میرا دوست سامان لے کر گھر چلا گیا۔ وہ بتاتا ہے کہ کچھ دیر بعد وہ گھر سے نکلا اور اس دکان کے سامنے سے گزرنے لگا تو اس جاہل نے پھر غلط حرکت کردی۔ اور اب کی بار اس کا نشانہ میرا دوست نہیں بلکہ ایک خاتون تھیں۔ اس جاہل نے دکان پر کھڑی خاتون کو دکھا دیکر گالی دی اور کہا۔ جاؤں یہاں سے دفع ہوجاؤ۔ نہیں ہے سامان۔ وہ خاتون اس جاہل کا دھکا برداشت نہیں کرسکی اور روڈپر گرتے گرتے بچی۔ میرا دوست کہتا ہے کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں پھر اس کی دکان میں گھس گیااور اسے وہیں مارنا شروع کردیا۔ اب کی بار ہجوم کچھ زیادہو گیاتھا،اور اسے بچانے کے لیے اس کے بھائی وغیر ہ بھی آگئے تھے اب میرا دوست اکیلا اور وہ کافی سارے تھے مگر اس نے ہمت سے کام لیا، کسی طرح دکان سے باہر تک آگیا۔ جس کے بعد اس عورت نے اپنے گھر فون کرکے ساری صورت حال بتائی اور ان کے بھی مرد حضرات دوڑتے دوڑتے دکان تک پہنچیں۔ کئی لوگوں نے بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی مگر سب اس جنگ میں سب کو ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔ اب وہ لوگ کم تھے اور میرے دوست کے ساتھ اس عورت کی فیملی کے لوگ بھی شامل ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان کی ایک بار پھر سے اچھی خاصی درگت بنی۔ معاملہ پولیس تک جاپہنچا۔
کچھ دیر بعد سب کے سب علاقے کے معززین کے سامنے حاضر ہوئے جہاں پولیس بھی موجود تھی۔ ہرطرف سے اس جاہل پر ہی انگلی اٹھ رہی تھی۔ آخر میں جب سب کی سن کر پولیس والے نے اس سے پوچھاکہ تم کیا یہاں بدمعاش ہو،جو ہر کسی کے ساتھ لڑرہے ہو، آگے سے پھر وہی جواب ملا کہ صاحب روزہ لگا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ جس پر میرے دوست نے کہا کہ روزہ رکھ کر ہم پر احسان مت کرو۔ روزہ اللہ کے لیے رکھتے ہو۔ ہمارے لیے نہیں۔ اگربرداشت نہیں ہے تو مت رکھا کرو۔ اب کی بار اس نے جواب دینے کے لیے منہ ہی کھولا تھا کہ اس کے بھائیوں نے پھر سے بکواس شروع کردی۔خیر جیسے تیسے معاملہ تو نمٹ گیا مگر میرا دوست بتا تا ہے کہ اس کی زندگی اجیرن کردی ان جاہلوں نے۔ روز کسی نہ کسی بہانے سے اب اسے تنگ کیاجاتاہے۔لیکن اس نے اب کی بار تھانے میں ایک بھرپور قسم کی درخواست دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب دیکھوں کیا ہوتا ہے۔
یہ دو تین واقعات بتانے کامقصد صرف یہ تھا کہ وہ لوگ خاص کر جن کی قوت برداشت نہیں وہ روزے نہ رکھیں۔ کیوں کہ ان کاروزہ رکھنا دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے۔ اگر آپ بھی ان میں سے ایک تو برائے مہربانی روزے کا تقدس پامال مت کریں اور انسان بن کر انسانوں کی طرح زندگی گزاریں ۔ اسی میں آپ کی اور معاشرے کی بھلائی ہے۔ ورنہ کہیں آپ بھی اپنی درگت بناکر بعد میں معذرت کررہے ہوں گے۔ کیوں کہ دو ہاتھ اگر اللہ نے آپ کو دیے ہیں تو وہی دو ہاتھ اللہ نے سامنے والے کو بھی عطا کیے ہیں، اور وہ بھی ان کا بھرپور استعمال کرنا جانتا ہے۔ باقی آگے آپ کی مرضی۔ ہمارا کام تھا مشورہ دینا آگے جاہلت کے اوپر ہے عمل کریں یا اپنی جاہلت میں مزید اضافہ کریں۔
عارف میمن ۔

Comments

More than 80 million Pakistani drug addicts

جمہوریت کیا ہے؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے نام۔

الطاف حسین اور عمران خان کزن ہیں؟