مقبوضہ کشمیر اور کشمیر کمیٹی
مقبوضہ کشمیر اور کشمیر کمیٹی
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ اس بات سے او آئی سی ‘اقوام متحدہ اور نام نہاد سپر پاور امریکا بھارتی بربریت اور انسانی حقوق کی پامالی سے بخوبی واقف ہیں۔ کشمیرپر مظالم کے حوالے سے آئے روز انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا پر خبریں آتی رہتی ہیں‘جس سے ایک بات واضح ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اٹھانے کی ضرورت نہیں بلکہ اب حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر ایک کشمیرکمیٹی بھی بنا رکھی ہے جس کے چیئرمین اس شخص کو بنایا گیا ہے جسے شاید کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں‘ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب سے موصوف نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا اس دن سے آج تک اس شخص نے ایک بھی بیان کشمیر کے حق میں نہیں دیا اور نہ ہی بھارتی جارحیت پر لب کشائی کی۔ صرف اسی پر بس نہیں ‘انہوںنے اب تک کشمیر کے حوالے سے کوئی اجلاس تک نہیں بلایا اور نہ کوئی اپنا ایجنڈا بنایا۔ پاکستان کے سیاستدان صرف پانچ فروری کو کشمیر کی حمایت پر ایک بیان جاری کرنا ہی اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ اس سے آگے ان سے کسی بھی چیز کی توقع کرنا بیکار سی بات ہے۔ کشمیری نوجوان جوآج پاکستان کی طرف امید بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاکستانی سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ وہ پاکستانیوں کی طرف دیکھتے ہیں یا پھر وہ پاک افواج کی طرف دیکھتے ہیں۔ اور ہمارے سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ کیوں کہ ہمارے نام نہاد سیاستدانوں نے صرف بیان بازیوں تک خود کو محدود کر رکھا ہے۔ قومی اسمبلی میں آج تک کسی بھی عوامی نمائندے نے کشمیر پر واضح پالیسی بیان جاری نہیں کیااور نہ ہی کسی میں اتنی جرات ہوئی کہ وہ بھارتی جارحیت کا اسمبلی میں منہ توڑ جواب دیں۔
جب بھی کوئی بھولا بھٹکا بیان اخباروں کی زینت بنتا ہے تو اس میں اس بے حس لوگوں کی طرف سے صرف ایک ہی بات کی جاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو بیرونی دنیا میں اٹھایا جائے گا‘ اقوام متحدہ کردار ادا کرے‘یا پھر یہ سننے کو ملتا ہے کہ مسئلہ کشمیرکا حل کشمیریوں کی رائے کے مطابق ہو۔ بس یہ ہی سنتے سنتے ہم بڑھے ہوگئے ہیں مگر یہ کیسا مسئلہ ہے جو حل ہی نہیں ہوتا۔ ان بے حس لوگوں نے درحقیقت کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ سمجھا ہی نہیں۔ اگر سمجھا ہوتا تو پھر یہ مسئلہ بھی مسئلہ نہ رہتا اور کشمیر آج آزاد ہوتا۔
مسئلہ کشمیر کو بیرونی دنیا میں اب اٹھانے کی ضرورت نہیں بلکہ اب حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ہی پاکستانی قوم چاہتے ہیں۔مگر اس پر کسی کی توجہ نہیں ۔ مسئلہ کشمیر اگر حل کرنا ہوتا تو وہ کب کا حل کردیاجاتا ‘مگر لگتا ہے ایسا ہے کہ اس مسئلے کو مسئلہ ہی رہنے دینے میں ہر کوئی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ اس کے پیچھے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں اس کا علم تو میرے رب کو ہے۔ مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں تو اس کے پیچھے سیاسی مفاہمت ہے جو بھارت سے پس پردہ جاری ہے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اس بات کا علم تمام عالم کو ہے تو پھر کس کو بے وقوف بنایاجار ہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو بیرونی ممالک میں اٹھائیں گے۔ ساری دنیا اس بات سے اچھی طرح واقف ہے اور اقوام متحدہ بھی اس سے آگاہ ہے ‘مگرجس طرح پاکستان میں ہوتا ہے کہ جس مسئلے کو حل نہ کرنا ہو اس پر ایک کمیٹی بنا دو‘ اور پھر اس پر ایک اور کمیٹی بنا دو‘اس طرح مسئلہ ‘مسئلہ بھی رہے گا اور حل بھی نہیں ہوگا اور لوگوں کی نظر میں بھی رہے گا کہ مسئلے کے حل کے لیے کام ہور ہاہے ۔ اسی طرح کشمیرکو بھی ڈیل کیاجارہاہے۔تاکہ لوگوں کی نظروں میں یہ رہے کہ کام ہورہاہے اور درحقیقت کام پورا ہوچکا ہے۔
حکومت چاہیے تو ایک ہفتے کے لیے اپنی تمام تر توجہ کشمیر پر مرکوز کر دے تو یہ کشمیر کی آزادی میںایک ہفتہ بھی مشکل لگے۔ اور کشمیر آزاد ہوجائے۔ مگر جیسے پہلے کہاکہ یہ مسئلہ ‘مسئلہ ہی رہنے میں شاید عافیت سمجھی جارہی ہے اس لیے اس کے حل کے لیے بھی ایسی ہی تدبیریں کی جارہی ہیں جو اس مسئلے کو صدیوں تک ایسے ہی رہنے دینے کے لیے کافی ہیں۔
اگرآج کوئی کشمیری پاکستان کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سے صرف ایک ہی سوال کرلے کہ آپ نے ہمارے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ تو یقین کریں غیر مند کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔کیوں کہ ان کے پاس صرف آئیں بائیں شائیں کے سوا کہنے کو کچھ بھی نہیں ہوگا۔
جتنا عرصہ کشمیرکولہولہان ہوئے ہوا ہے اگر اس عرصے میں رتی بھربھی دل سے کوشش کی جاتی تو کم از کم آج کشمیر میں لاشیں نہ گر رہی ہوتیں۔ان لوگوںنے تو اتنا بھی نہیں کیا کہ بھارت کو اس بربریت سے باز رکھ سکیں۔اگر کشمیر کی بات بیرونی دنیا مےں کرنی ہی ہے تو انہیں بھارت کا اصل چہرہ دکھائیں کہ وہ کشمیر میں کیا کیا ظلم ڈھا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیرونی دنیا بھی اس سے بخوبی واقف ہے کہ بھارت کشمیر میں ظلم کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے مگر کسی کو پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے ‘اور ہم اس امید پر ہیں ترقی یافتہ ممالک اس پر ہمارا ساتھ دیں گے اور کشمیر کو آزاد کرانے میں پاکستان کی مدد کریں گے۔ مگر حقیقت میں ایسے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں یا پھر وہ دوسروں کو احمق بنانے میں مصروف ہیں کیوں کہ کچھ لو اور کچھ کی بنیاد پر ہی کام ہوتا ہے ہمارے پاس کیا ہے دینے کو؟ جب دینے کے لیے کچھ نہیں تو پھر جھوٹی امیدیں بھی نہ دی جائیں کشمیریوں کہ ہم کام کررہے ہیں ‘ہم آپ کے مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دل سے کوئی بھی اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں نہیں کررہا صرف اس بات کی کوششیں کی جارہی ہوتی ہیں کہ کس طرح مسئلہ کشمیر پر فنڈلیاجائے اور کس طرح اسے اپنی عیاشیوں پر خرچ کیاجائے ۔ میں پھر کشمیریوں کو یہ ہی کہنا چاہوں گاکہ پاکستانی قوم آپ کے ساتھ ہیں مگر خدا کے لیے پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنی آخری امید مت بنائیں‘ آپ جو کچھ کررہے ہیں اسے سلام ہے اور ہم صرف یہاں سے آپ کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ آپ کو بھی آزادی دیکھنا نصیب کرے ‘آمین‘
Comments
Post a Comment