farishty log...
Arif memon
گزشتہ روز ڈاکٹر طاہر القادری کی پریس کانفرنس دیکھی‘جس میں انہوں نے ایک بار پھر بڑے وثوق کے ساتھ شریف برادران پر الزام لگایا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ تمام دستاویزات میرے پاس ہیں جب چاہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے لے لیں۔ان کا کہنا تھاکہ شریف برادران کی شوگرملز میں بھارتی ایجنڈموجود ہیں۔ یہ کوئی معمولی الزام نہیں۔ یہ ملکی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی جواب کہیں اور سے آیا ہے۔ جن پر الزام ہے وہ خاموشی سے اپنا کام کیے جارہے ہیں اور جواب کے لیے کرائے کے لوگ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ صاف ہیں اور ان کا ان الزامات سے کوئی واسطہ نہیں تو پھر انہیں اس کا جواب دینا چاہیے نہ کہ خاموش رہ کر مزید اپنی ساکھ کو خراب کریں۔ ساتھ ہی جواب دینے والوں نے یہ بھی کہاکہ اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تووہ عدالت جائیں۔ یہ وہ مذاق ہے جسے پورا ملک جانتا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام کس قدر موثر ہے۔ پاکستان کا قانون ایک ایسا قانون ہے جسے جب چاہیے کوئی بھی پیسے والا شخص آسانی سے موڑ سکتا ہے۔ کوئی بھی پیسا پھینک کر فیصلہ اپنی مرضی کا لے سکتاہے۔ یہ ان عدالتوں کی بات کررہے ہیں جن کے پاس سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس پہلے سے موجود ہے۔یہ ان عدالتوں کی بات کررہے ہیں جن کے پاس حسین حقانی نیٹ ورک‘ پرویز مشرف غداری کیس‘ راجہ پرویز اشرف اسکینڈل ‘ یوسف رضا گیلانی اسکینڈل ‘ڈاکٹر عاصم کیس ‘شوکت عزیز اسٹاک مارکیٹ کیس ‘اکبر بگٹی قتل کیس ‘ لال مسجد کیس‘ انتخابی دھاندلیوں کا کیس اور نہ جانے کتنے کیس آج بھی سماعت کے لیے انتظار میں موجود ہیں۔ اور ایسے ہزاروں دیگر کیس بھی موجود ہیں جوجن کی آج تک سماعت ہی نہیں ہوئی۔ ہزاروں بے گناہ صرف اس امید پر زندہ ہیں کہ شاید کوئی مسیحا انہیں جیلوں سے رہا کرادے۔ ہماری عدالتوں کا کسے نہیں پتا۔ خود چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ تو کیا ان کالی بھیڑوں کو نکالنے کے لیے عوام کو آگے آنا پڑے گا؟ پولیس خود کہتی ہے کہ ہمارے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں‘وکلاخود کہتے ہیں ہمارے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ ملک کا ہر ادارہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے اندر کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ آخر ان کالی بھیڑوں کو پکڑے گا۔ خود توآپ لوگ پکڑنے سے رہے۔ توپھر اگریہ کام عوام خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں تواسمبلی بیٹھے فرشتے کہتے ہیں کہ جمہوریت ڈیل ریل ہورہی ہے۔ یہ لوگ دہشت گرد ہیں ‘ یہ لوگ ملک کی ترقی نہیں چاہتے ۔ آخر عوام جائیں تو کہاں جائیں۔
مہنگائی پر اسمبلی بیٹھے فرشتے کبھی آواز نہیں اٹھاتے ۔ ان کی آواز صرف یہاں پر اٹھتی ہے جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کرسی جانے والی ہے۔ بس کرسی کے چھیننے کے ڈر وخوف سے یہ لوگ آواز اٹھاتے ہیں ۔ نہ تو انہیں عوام کی کوئی فکرہے نہ ہی ملک سے کوئی دلچسپی ہے۔ ان لوگوں کو غرض ہے تو صرف اپنے ذاتی مفادات سے۔ نہ پولیس انصاف دے رہی ہے نہ عدالتیں‘نہ ہی فوج عوام کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ہر ادارہ اپنے اپنے ادارے کی جھوٹی شان کی خاطر دفاعی بیانات دے رہے ہیں۔ یہاں عوام گھنٹوں ٹریفک میں پھنسی رہتی ہے اس پر کوئی کچھ نہیں بولتا‘ لوگ اپنے لخت جگر کو بیچنے پر مجبور ہیں اس پر کوئی کچھ نہیں بولتا‘ اسپتالوں میں غریب ماں فرش پر بچہ جنتی ہے۔ اس پر کسی کوکوئی فرق نہیں پڑ رہا ‘ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ 30ہزارمیں گھرچلنا مشکل ہور ہا ہے وہاں لوگوں 100روپے کی دھاڑی لگانے پر مجبور ہیں ۔ اس پر کسی کا دھیان نہیں۔ صرف وزیراعظم کی طرف انگلی اٹھی نہیں کہ پورا ایوان بالا مچل اٹھتا ہے اور پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شرو ع ہوجاتا ہے۔ مزید سونے پرسہاگہ یہ کہ ان فرشتوں نے اپنے ساکھ کو بچانے کے لیے ایسے متنازع بل تک منظور کرلیے ہیں کہ اگر کوئی چاہے بھی توان کے خلاف بات نہ کرسکے۔ ورنہ سیدھا جیل جانا پڑجائے گا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ظلم کی اندھیری رات کے بعد امن کا سورج ضرور نکلتا ہے۔ اوریہ بھی حقیقت ہے جب یہ سورج نکلتا ہے تو پھر اندھیرے میں گناہ کرنے والے کہیں بھی کسی کوبھی منہ دیکھانے کے قابل نہیں ہوتے۔
Comments
Post a Comment